میں اور جون ایلیا

1931- 2002

مجھے اچھی طرح یاد ہے کی بچپن میں میرے گھر میں ایک قطعہ  اور دو لوگوں کا ذکر وقتًا فوقتًا   ہوتا تھا۔ قطعہ تھا جون ایلیا کی مشہور نظم رمز کا۔ اور وہ دو لوگ تھے خود جون ایلیا اور انکی اہلیہ زاہدہ حنا۔ 
یہی وہ دن تھے جب میرا بھائ جون سے تعرف ہوا تھا۔ بھائ جون، محلہ کے تمام لوگ جون ایلیا کو بھائ جون ہی کہکر یاد کیا کرتے تھے۔ جون  کی فلسفیانہ شاعری تو خیر الگ ہے مگر جون کے کچھ اشعار محلہ کے تقریبًا ہر فر د کو یاد ہوا کرتے تھے۔انمیں شرم، دہشت، جھجھک۔۔۔۔۔۔۔،اور تم جب اوگی تو کھیا ہوا پاوگی مجھے۔۔۔۔۔اکژر سنے اور سنائے
جاتے تھے۔

جون سے میرا باقاعدہ تعرف ۲۰۱۰ کے اواخر میں ہوا۔ محلہ کے کچھ لڑکے جون کے بڑے شیدائ تھے۔جن میں اسلم بھائ اور اشرف بھائ کے نام اہم ہیں۔ انہی کی معرفت سے میری جون ایلیا کی شاید تک رسائ ہوئ۔اور پھر اسکے بعد فیسبک پر جون ایلیا کا پیج جوائن کیا جسے خالد احمد انصاری چلاتے ہیں۔ یہیں سے جون اور میرا باقاعدہ رشتہ قائم ہوا تھا۔ امروہہ کے ایک شاعر جو کہ پاکستان ہجرت کر گئے تھے کی حیثیت سے تو جون کو پہلے سے جانتا تھا مگر جون کو جون ایلیا کی طرح جاننے اور سمجھنے کی شروعات یہیں سے ہوئ تھی ۔ گھر کے ایک گوشے میں اکژر بیتھا رہنے والا، یا محلہ میں اواراگردی کرنے والا لڑکا اب باقاعدہ شعر و سخن میں دلچسپی لینے لگا تھا۔ اور حالات اس سے بھی زیادہ خراب ہو رہے تھے۔ یہی وہ دن بھی تھے جب پہلی مرتبہ مرض دل میں مبتلہ ہوا تھا۔ وہ بھی جون کی ایک شیدائ سے۔ بات فیسبک سے فون پر بات کرنے تک بھی پہنچی مگر میں قدر شرمیلا تھا۔اب بھی ہوں۔بات وات نہیں کر پایا زیادہ۔۔

معصوم کس قدر تھا میں آغاز عشق میں
اکثر تو اسکے سامنے شرما گیا ہوں میں

یہی سب سلسلے کئ دن تک چلتے رہے۔ جون اب میرے شعور میں پیوست ہوتے جا رہے تھے۔  جون کی شاعری کے علاوہ شاید کا دیباچہ ’’نیازمندانہ‘‘ تباہ کن ثابت ہوا۔ بہت حد تک مزہبی لڑکا اب سوچنے کی محلک بیماری میں مبتلہ ہونے جا رہا تھا یا ہو چکا تھا۔ صحیح معنی میں مجھے غور اور فکر، کشادہ ذہنی کی (جسکا مجھے گمان ہے ) طرف راغب کرنے میں جون کا کردار بہت اہم ہے۔ اسکے علاوہ محترم ضیاالبدر، برادر عزیز نوازش نقوی، مولانا کامران حیدر وغیرہ نے بھی بہت متاثر کیا ۔

بات جون ایلیا کی ہو رہی تھی۔اردو شعر ادب سے آ  شنائ رکھنے والا شخص جون کے نامِ نامی سے ضرور واقف ہوگا۔ جون ایلیا بر صغیر کے ان نمائندہ شعرا میں ہیں جنہوں نے اردو شاعری میں اپنے منفرد طرز و بیان  سے نئ وسعتیں پیدا کیں۔ خاص طورسے  جون کی شاعری کے حوالے سے جس نکتہ پر  کم گفتگو ہوتی ہے وہ ہے مکالماتی شاعری۔ اساتزہ اور جون کے ہم عصر شعرا کے ہاں  مکالماتی شاعری کی مثالیں موجود ہیں مگر وہ چند اشعار یا چند غزلوں تک محدود ہیں ۔ جون کی شاعری کا ایک بڑا حصہ مکلاما تی شاعری کی مثالوں سے بھرا ہے ۔ مثلًا انکی نظم ’نقش کہن ؔ یا مشہور غزل ’بنام فارحہ۔جس میں انہونے اپنی خیالی محبوبہ کو مخاطب کیا ہے۔۔۔۔۔

ساری باتیں بھول جانا فارحہ
تھا وہ سب کچھ اک فسانہ فارحہ

ہاں محبت ایک دھوکا  ہی تو ہے
اب کبھی دھوکا  نہ کھانا فارحہ

پیشکش میں پھول کر لینا قبول
اب ستارے مت منگانا فارحہ۔۔۔

اسی طرح کی اور بھی غزلیں اور نظمیں جون کے  شائع شدہ کلام میں موجود ہیں۔ سہل بیانی اور ادق پسندی ان دونوں کا یک جا ہونا بھی شاذ و نادر پایا جاتا ہے۔ جون کی شاعری میں یہ دونو عنصر موجود ہیں۔۔۔

زندگی کس طرح بسر ہوگی
دل نہیں لگ رہا محبت میں

آ سان بہر میں اس اچھا اور جازب شعر کم ہی دیکھنے میں اتا ہے۔ جون ایلیا نے اپنی نظموں میں اکژر بہت مشکل زبان استعمال کی ہے۔ جون کی نظموں کو پسند کرنے والے قاریئن اس بات سے بخوبی واقف ہے۔

جون کی شاعری سے جڑے یہ سب پہلو تفصیل طلب اور  ماھرانہ رائے کے متحمل ہیں۔ جون ایلیا کی شاعری کے علاوہ مجھے انکے نظریات نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ جون کا مطالعہ وسیع تر تھا۔ اسلامی تاریخ اور فلسفے پر انکی گہری نظر تھی۔ عربی اور فارسی پر بھی عبور تھا ۔ ان سب عناصر کا ایک جگہ ایک ہی شاعر اور اسکی شاعری میں شامل ہونا ہی جون کو انکے ہم عصر اور ایک حد تک ان سے قبل کے اکثر شعرا سے جدا بناتا ہے۔ میرے نذدیک عظیم شاعر وہ ہے جسکا پیغام آفاقی ہو۔ عالم انسانیت کے لیے ہو کسی ایک قوم اور ملک کے لئیے نہ ہو۔ اور یہ چیز جون ایلیا کے یہا ں جا بہ جا ملتی ہے۔جون اشتراکی نظریات بھی رکھتے تھے۔

ہو جہاں ذر نہ قیمت یوسف
کر وہ بازارِ بے درم تازہ

اس طرح کے اشعار سے جون نے اپنے نظریات کا بخوبی اظہار کیا ہے۔اسکے علاوہ ںنثر میں  بھی جون نے لاثانی مثالیں قائم کی ہیں۔ انکے پلہے شعری مجموعے ’شاید ‘ کا مقدمہ انکی  اردو نثر پرقدرت  کو    ثابت کرنے کے لئیےکافی ہے۔ نثر میں بھی جون نے اپنے ں نظریات کا کھلکر اظہار کیا ہے۔ 
  
مجموعی طور پر یہی ساری چیزیں  ہیں جو مجھے جون ایلیا کے قریب لے جاتی ہیں۔ شاعری محض شاعری کی حد تک وقتی طور پر لطف تو فراہم کرا سکتی ہے مگر فکر کو متاثر کرنے والی شاعری گہری فکر کا نتیجہ ہوتی ہے اور فکر نظریات کی وسعت سے پیدا ہوتی ہے۔ جون کی شخصیت میں وسعتِ نظری کی کرشمہ سازی ہے جو واضع طور پر قاری کو متاثر کرتی ہے۔ یہی جون کی شاعری کا  attraction ہے۔

You Might Also Like

0 comments

Note: only a member of this blog may post a comment.