میں اور بھگت سنگھ


 بھگت سنگھ اور میرا رشتہ اسی طرح   قائم ہوا جس طرح میرے ہم عمر بچوں کا ہوا تھا۔ درسی کتابوں اور بھگت سنگھ کی زندگی پر بننے والی فلموں نے ایک نقش دماغ پر بٹھا دیا تھا جوایک مدت تک قائم رہا۔ مجھے درسی کتب پڑھنے کا شوق کبھی نہیں رہا۔ شاید یہی وجہ ہے کی میں تعلیمی ریس میں اوروں سے تھوڑا پیچھے ہوں۔مگر درسی کتا بوں کے علاوہ چمپک اور کامکس پڑھنے کا ہمیشہ سے شوق رہا ہے۔ شروع میں اردو اور انگریزی باآسانی نہیں پڑھ پاتا تھا۔ تعلیم کا میڈیم ہندی تھا اس لیے ہندی با آسانی پڑھ لیتا تھا۔ مگر دل میں خواہش تھی کہ اردو اور انگریزی میں بھی کتابیں پڑھنی ہیں۔ کوشش کرتا رہا اور دھیرے دھیرے ان دونوں زبانوں میں بھی کتب پڑھنے لگا۔  یہ بات قابل فہم ہے کی جتنی زیادہ زبانیں ہم جانتے ہونگے ہمارا مطالعہ کا داعرہ بھی اتنا ہی وسیع تر پوگا۔چونکی میرا تعلق امروہہ سے ہے اور امروہہ ہندوستان اور بیرون ہندوستان اردو شعر و ادب میں اپنی خدمات کے لئے جانا جاتا ہے۔ مگر قابل حیرت ہو سکتا ہے کی امروہہ میں کوئ بھی اچھی کتابوں کی دکان نہیں جہاں آپکو معیاری کتب مل جائیں۔ حال ہی میں محلہ گزری میں ایک دکان قائم تو ہوئ ہے مگر وہاں مزہبی نوعیت کی کتب ہی دستیاب ہوتی ہیں۔ امروہہ جو کہ  اردو شعر و ادب کا ایک زریں مرکز مانا جاتا ہے وہاں اردو کی معیاری کتب دستیاب نہیں ہوتیں تو دوسری زبانوں جیسے انگریزی اور ہندی میں کتابیں ملنے کا سوال ہی نہیں۔ اور یہی میری بھی مشکل تھی۔ اس کا کچھ حل ڈاک کے ذریے کتب منگا کے نکلا مگر وہ بھی کافی نہیں تھا۔ خیر، کتا بیں پڑھنے کا سلسلہ دھیرے دھیرے چلتا رہا ۔ سن ۲۰۱۲ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے دہلی  آنے کا سنہرا موقع فراہم ہوا۔ میں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ام ایس سی میں داخلہ لیا۔ یہیں سے بھگت سنگھ کی شخصیت اور انکے نظریات کو باقاعدہ جاننے کا سلسلہ بھی شروع ہوا  جو اب تک جاری ہے۔

دہلی آنے کے بعد کتابیں خریدنے اور پڑھنے کا شوق مزید پروان چڑھنے لگا۔ وہ کتاب جس نے   مجھے بھگت سنگھ اور انکے نظریات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے سبسے زیادہ متاثر کیا وہ تھی ’’میں ملحد کیوں‘‘ (Why I am an Atheist) اور اس میں موجود پروفیسر بپن چندر کا دیبا چہ۔ انہوں نے میرے سامنے بھگت سنگھ کی وہ تصویر پیش کی جو عوام میں بھگت سنگھ کی امیج سے بالکل جدا تھی۔ اب تک میرے ذہن میں بھگت سنگھ کی جو تصویر تھی اسکے مطابق وہ ایک مجاہد آزادی اور وطن پرست نوجوان تھے جو مادر وطن کی آزادی کے لیے جان دنیے اور لینے کا جوش اور ولولہ رکھتا تھا۔ مگر اس مختصر سی تحریر کو پڑھنے کے بعد بھگت سنگھ کی ایک نئ امیج سے آشانئ ہوئ۔

 بھگت سنگھ، جیسا کی درسی کتابوں اور فلموں میں دکھایا جاتا ہے، اس سے بالکل الگ تھے۔ وہ نہ صرف ایک مجاہد آزادی تھے بلکہ ایک دانشور بھی تھے۔ اپنی تحریروں اور خطوط میں انہوں  نے جن نظریات کا اظہار کیا ہے وہ انکی سیاسی اور سماجی بصیرت اور انکی فکر کی وصعت کو ثابت کرنے کے لئیےکافی ہے۔ یوں تو بھگت سنگھ ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے اور انکے دادا اور والد کشن سنگھ سناتن دھرم کے پیرو تھے مگر بھگت سنگھ نے بڑھتی مزہبی انتہا پسندی اور اپنے مطالعہ کے اثر سے اپنے لیئے الحاد کا راستہ چنا اور آخری وقت تک اسی پر باقی رہے۔ ہندستان بظاہر صرف انگرزوں اور سرمایاداروں کا غلام تھا۔ مگر بھگت سنگھ اور انکے کامریڈ دو محاذوں پر جنگ کر رہے تھے۔ ایک تھی سرمایا دار انگیرز حکومت کے خلاف اور دوسری تھی مزہبی شدت پسندی اور عدم برداشت کی قوت کے خلاف۔ اور انہی دونوں محاذوں پر لڑتے لڑتے انہونے اپنی جان بھی دی۔ بھگت سنگھ اپنی تمام عمر امن و آشتی کا  پیغام اپنی تحریروں اور اپنے عمل سے دیتے رہے۔ ہندوستان میں Secularism   اور سماجی ہم آہنگی کے نظام کے بانیوں میں بھگت سنگھ کا نام بھی سنہرے حروف میں درج ہے۔

 بھگت سنگھ جو بظاہر ایک جوش و جذ بہ سے لبریز شخصیت نظر آتے تھے  در حقیقت  وہ ایک مفکر،مدبر اور دانشور تھے۔جس نے محض  اپنے نظریات سے انگریزی سرکار کے دانتوں تلے پسینہ لا دیا۔ انگریز ہندستان میں امن کے دشمن تھے۔ وہ ہندووں اور مسلمانوں کو آ پس میں برسر پیکا ر رکھنے کی کوششیں کر رہے تھے اور ایک حد تک کامیاب بھی ہو رہے تھے۔ادھر بھگت سنگھ انگریزی حکومت کے منصوبوں کو برباد کر دینے پر آ مادہ تھے انگریزوں کو بھگت سنگھ کی بہادری اور طاقت کا ڈر نہیں تھا بلکہ سماج کو بدل دینے والے انکے نظریات  انکے لیئے پریشانی کا سبب تھے۔ اسکے لئیےانہوں نے ہر شخص سے مقابلہ کیا جس نے عوام کو مزہب کے نام پر بانٹنے کی کوشش کی۔وہ سرمایاداری نظام کے دشمن تھے۔ وہ غریب پرور تھے۔ وہ محبت کے پیغامبر تھے۔ اور یہی چیزیں مجھے انکے نزدیک لاتی ہیں۔ انہی نظریات کی بنا پر میرا اور بھگت سنگھ کا رشتہ قائم ہوا ہے۔

You Might Also Like

0 comments

Note: only a member of this blog may post a comment.